Wednesday, 29 March 2017
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے گجرانوالہ میں کئے گئے سالانہ میلادِ مصطفیٰﷺ و حق باھُو کانفرنس کے فکری خطاب کا خلاصہ: آج ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم نےاپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس کی جانب متوجہ کیا ہے کہ نہیں؟ کیاہم نے اپنے بدن،عقل،قلب اور روح کا قبلہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کی طرف کیا ہے کہ نہیں؟کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ: ’’وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا ’’ہر ایک کی کوئی نہ کوئی جہت(سمت) ہوتی ہے‘‘- حوالہ:(البقرۃ:۱۴۸) اس لئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان کے ہونے اور نہ ہونے سے قبلۂ جسم و جان بدل جاتا ہے ، جیسا کہ شیخ نجم الدین کبریٰ (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی تفسیر ’’تاویلاتِ نجمیّہ‘‘میں فرمایا ہے کہ ایمان ہو تو سمتِ توجہ (یعنی قبلہ) ہوگا اور اگر ایمان نہ ہو تو سمتِ توجہ بدل جائے گی- اگر ایمان نہ ہو تو : بدن کا قبلہ: ’’فقبلۃ البدن ھی بالتلذذ بالحواس الخمس من الماکولات والمشروب المشموم والمسموع والمبصر والملموس والمرکوب والمنکوح و امثالہ‘‘ ’’بدن کا قبلہ حواسِ خمسہ کےساتھ لذت حاصل کرنا ہے ، جیسے کھانا پینا، سونگھنا ، سننا، دیکھنا ، چھونا ، سوار ہونا ، نکاح کرنا وغیرہ‘‘- نفس کا قبلہ: ’’وقبلۃ النفس ھی الدنیا و زینتھا و رفعتھا والحرص فی جمعھا ولتفاخر بھا والتکبر لھا و اشباہ ذٰلک‘‘ ’’نفس کا قبلہ دُنیا ، اس کی زینت اور بلندی چاہنا ، دنیا جمع کرنے کی حرص ، دُنیا پر فخر کرنا اور تکبر کرنا ‘‘- لیکن اگر دولتِ ایمان نصیب ہو جائے تو ہر ایک چیز کی سمت بدل جاتی ہے - مثلاً: بدن اور نفس کا قبلہ: ’’فجُعلَ قبلۃالبدن الکعبۃ، و قبلۃ النفس الطاعۃ و العبودیّۃ و ترک الھویٰ‘‘ ’’بدن کا قبلہ کعبہ بن جاتا ہے اور نفس کا قبلہ اطاعت ، بندگی اور خواہشات کا ترک کرنا بن جاتا ہے ‘ ‘- قلب اور رُوح کا قبلہ: ’’و قبلۃ القلب الصدق و الاخلاص والایمان والایقان والاحسان، و قبلۃ الروح التسلیم و الرضا والصبر علیٰ امر القضا‘‘ ’’دِل کا قبلہ صدق ، اخلاص ، ایمان ، یقین اور احسان بن جاتا ہے جبکہ روح کا قبلہ تسلیم و رضا اور قضا کے فیصلوں پہ صبر کرنا بن جاتا ہے ‘ ‘- اِس لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قبلہ یعنی مرکزِ توجہ ہماری ایمانیاتی زندگی میں ایک اہم حیثیت کا حامل ہے جس جانب ہماری توجہ کا مرکز ہوگا ہمارے اعمال کی ترجیح ، ہمارے افکار کی ترجیح ، ہمارے معاملات و معمولات کی ترجیح اُسی جانب جھکاؤ رکھے گی، ہماری وفائیں اور عہد و پیمان بھی اُسی جانب ڈھلے رہیں گے اِس لئے لازم ہے کہ دِل کو اللہ کی جانب راغب کیا جائے جیسا کہ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے متعلق سورہ انعام میں بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اُن کی توجہ کو ہر جانب بانٹنا چاہا اور وہ ہر جانب و طرف سے بیزار ہو گئے تو اپنا قبلہ اور اپنی توجہ کا مرکز چنتے ہوئے فرمایا: ’’اِنِّـىْ وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّـذِىْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا ۖ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ‘‘ ’’بے شک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی کےساتھ اُس (سچے رب) کی جانب موڑ دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے ، (اور جان لو کہ) میں مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘- حوالہ:(الانعام: 79) اِس لئے دینِ حنیف میں قبلہ کی ایک خاص اہمیت ہے ، ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمارے بدن ، نفس ، عقل ، دل اور روح کی سمتِ توجہ کیا ہے‘‘؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment